تحریر: مولانا سید ظفر عباس رضوی قم المقدسہ
حوزہ نیوز ایجنسی। انسان اپنی زندگی میں بہت سی چیزوں کو پسند کرتا ہے اور پوری کوشش کرتا ہے کہ وہ چیزیں ہمیشہ اس کے پاس رہیں جیسے مال و دولت، گاڑی و بنگلہ اچھا اور اونچا اسٹینڈر، شہرت، بڑے اور قد آور لوگوں سے تعلقات وغیرہ لیکن جس چیز کو انسان بہت زیادہ چاہتا اور پسند کرتا ہے وہ عزت ہے عزت انسان کو سب سے زیادہ عزیز اور محبوب ہے عزت کے لئے انسان کچھ بھی کرنے کو اور کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتا ہے عزت کی خاطر سب کچھ قربان اور نچھاور کرنے کے لئے آمادہ رہتا ہے ساری تکلیفیں اور ساری زحمتیں برداشت کر لیتا ہے لیکن کوشش کرتا ہے کہ اس کی عزت پہ آنچ نہ آنے پائے سوال یہ ہے کہ عزت کسے کہتے ہیں چار لوگ جانیں پہچانیں اور لوگوں میں نام ہو کسی بڑے منصب یا اونچی پوسٹ پہ فائز ہوں حکومت میں ہوں سیاسی لوگوں سے اچھے تعلقات ہوں کسی بڑے گھر اور خاندان کے ہوں، کیا انہیں ساری چیزوں کا نام عزت ہے،
جب ہم قرآن اور حدیث میں حقیقی اور واقعی عزت کو تلاش کرتے ہیں تو ہمیں ملتا ہے کہ واقعی اور حقیقی عزت کیا ہے،
خدا وند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرما رہا ہے:
"وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ"*(منافقون 8)
"عزت اللہ کے لئے ہے اور اس کے رسول کے لئے ہے اور مومنین کے لئے ہے"
دوسری جگہ ارشاد فرما رہا ہے:
"مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا"*(فاطر 10)
"جو بھی عزت چاہتا ہے ساری عزت اللہ کے لئے ہے"
امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
"كُلُّ عَزِيزٍ غَيْرُ اَللَّهِ سُبْحَانَهُ جل جلاله ذَلِيل"(غررالحکم ودررالکلم ص 508 ناشر دارالکتاب الاسلامی قم)
"خدا کے علاوہ جتنے بھی عزت دار ہیں سب ذلیل ہیں"
اسی غررالحکم میں آپ ارشاد فرماتے ہیں:
"كل عز لا يؤيده الدين مذلة"(غررالحکم ودررالکلم ص 508 ناشر دارالکتاب الاسلامی قم)
"ہر وہ عزت جس کی دین تایید نہ کرے وہ ذلت ہے"
تو پتہ یہ چلا کہ عزت وہی ہے جس کی دین تایید کرے یعنی دنیا کا کوئی بھی انسان ہو ظاہری طور پہ اس کے اندر جتنی بھی زیادہ عزت دکھائے دے لیکن اگر اس کے اندر دین اور خدا نہیں ہے تو وہ ذلیل ہے،
کائنات کے امیر امام علی علیہ السلام اپنی ساری عزت اور شرف کو اس طرح سے بیان کرہے ہیں آپ فرماتے ہیں:
"إِلَهِی کَفَی بِی عِزّاً أَنْ أَکُونَ لَکَ عَبْداً وَ کَفَی بِی فَخْراً أَنْ تَکُونَ لِی رَبّاً أَنْتَ کَمَا أُحِبُّ فَاجْعَلْنِی کَمَا تُحِبُّ"(بحارالانوار ج 74 ص 400 ناشر-داراحیاء التراث العربی بیروت)
"میرے اللہ میری عزت کے لئے کہ بس یہی کافی ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں اور میرے فخر کے لئے یہی بہت ہے کہ تو میرا رب ہے تو ویسا ہی ہے جیسا میں چاہتا ہوں اور مجھے بھی ویسا قرار دے جیسا تو چاہتا ہے"
امام نے ہمیں یہ بتا دیا کہ ساری عزت خدا کے بندہ ہونے میں ہے اس بڑھ کے کوئی عزت نہیں ہے، اور ہمارا سب سے بڑا فخر یہی ہے کہ خدا ہمارا رب ہے، مولائے کائنات کے فضائل کو آپ کی شجاعت و سخاوت وغیرہ کے بارے میں ہم بہت پڑھتے اور سنتے ہیں لیکن اگر ہمیں موقع اور فرصت ملے تو آپ کی عبادت کے بارے میں بھی غور کریں تو سمجھ میں آئے گا کہ آپ سے بڑا کوئی عابد نہیں ہے، زین العابدین اور سید الساجدین اگر چہ چوتھے امام کا لقب ہے لیکن جب آپ عبادت کرتے کرتے تھک جاتے تھے اور آپ کے چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا آپ سے کہا جاتا تھا کہ آخر آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں تو آپ فرماتے تھے:
"من یقوی علی عبادة علی ع"
"امام علی علیہ السلام کی طرح کون عبادت کر سکتا ہے"
(ارشاد مفید ج 2 ص 142 ناشر کنگرہ شیخ مفید قم)
"ابو درداء کا بیان ہے کہ ایک شب میں ایک کھجور کے باغ سے گزر رہا تھا کسی کی آواز سنا جو خدا سے مناجات کر رہا تھا جب نزدیک گیا تو دیکھا کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام تھے میں درخت کے پیچھے چھپ گیا وہ مغموم و محزون گریہ میں مشغول تھے اور خدا سے مناجات کر رہے تھے اس قدر گریہ کیا کہ سانسیں رک گئیں اور گر گئے میں نے سوچا کہ شاید سو گئے نزدیک گیا تو دیکھا کہ سوکھی ہوئی لکڑی کی طرح پڑے ہوئے تھے ان کو ہلایا لیکن کوئی حرکت نہیں ہوئی میں نے سوچا کہ دنیا سے کوچ کر گئے اور انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا جلدی سے آپ کے گھر گیا اور آپ کی رحلت کی خبر حضرت زہرا کو دی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے فرمایا:
"هِيَ وَ اللَّهِ يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ الْغَشْيَةُ الَّتِي تَأْخُذُهُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ تَعَالَى"
اے ابو درداء علی دنیا سے نہیں گئے ہیں بلکہ وہ خوف خدا سے بیہوش ہوگئے ہیں، ابو درداء کہتے ہیں:
"فَوَ اللَّهِ مَا رَأَيْتُ ذَلِكَ لِأَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ص"
"خدا کی قسم میں نے پیغمبر کے اصحاب میں سے کسی کو بھی ایسا نہیں دیکھا"
(بحارالانوار ج 41 ص 11 ناشر-داراحیاء التراث العربی بیروت)
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
"كَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع كَانَتْ لَهُ خَمْسُمِائَةِ نَخْلَةٍ فَكَانَ يُصَلِّي عِنْدَ كُلِّ نَخْلَةٍ رَكْعَتَيْنِ*(الخصال ج 2 ص 517 ناشر جامعہ مدرسین قم)
"امیرالمؤمنین علیہ السلام کے پاس پانچ سو کھجور کے درخت تھے اور ہر درخت کے پاس دو رکعت نماز پڑھتے تھے"
مناقب ابن شہر آشوب میں امام علی علیہ السلام کے سلسلہ سے ہے:
و کان یصوم النّهار و یصلّی باللیل ألف رکعة(مناقب شہر ابن آشوب ج 2 ص 123 ناشر- علامہ قم)
"امام علی علیہ السلام دن میں روزہ رہتے تھے اور رات میں ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے"
خود امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
"ما تَرَكتُ صلاةَ اللَّيلِ منذُ سَمِعتُ قولَ النبيِّ صلى الله عليه و آله صلاةُ اللَّيلِ نُورٌ فقالَ ابنُ الكَوّاءِ و لا ليلةَ الهَريرِ؟ قالَ و لا ليلةَ الهَرِيرِ"*(مناقب شہر ابن آشوب ج 2 ص 123 ناشر علامہ قم)
"میں نے اس وقت سے نماز شب ترک نہیں کی جب سے پیغمبر سے سنا ہے کہ نماز نور ہے ابن الکواء نے کہا کہ لیلة الہریر(جنگ صفین) کی رات بھی آپ نے فرمایا لیلة الہریر کی رات بھی"
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
"إِنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللَّهَ رَغْبَةً فَتِلْكَ عِبَادَةُ التُّجَّارِ، وَإِنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللَّهَ رَهْبَةً فَتِلْكَ عِبَادَةُ الْعَبِيدِ، وَإِنَّ قَوْماً عَبَدُوا اللَّهَ شُكْراً فَتِلْكَ عِبَادَةُ الاَْحْرَارِ"(نہج البلاغہ حکمت 237)
"ایک قوم خدا کی عبادت لالچ کی وجہ سے کرتی ہے اور یہ تاجروں والی عبادت ہے اور ایک قوم خدا کی عبادت خوف کی وجہ سے کرتی ہے اور یہ غلاموں والی عبادت ہے اور ایک قوم شکرانہ کے طور پہ خدا کی عبادت کرتی ہے اور یہ آزاد لوگوں والی عبادت ہے"
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
"إنّ العُبّادَ ثَلاثةٌ قَومٌ عَبَدوا اللّهَ عَزَّ و جلَّ خَوفا فتِلک عِبادَةُ العَبیدِ، وَ قَوم عَبَدوا اللّهَ تَبارک و تَعالى طَلَبَ الثَّوابِ فتِلک عِبادَةُ الاجَراءِ، و قَوم عَبَدوا اللّهَ عَزَّ و جلَّ حُبّا لَهُ فَتِلک عِبادَةُ الأحرارِ، و هِی أفضَلُ العِبادَةِ*(الکافی ج 2 ص 84 ناشر دارالکتب الاسلامیہ تہران)
"عبادت کرنے والے تین طرح کے ہیں ایک گروہ خوف کی وجہ سے خدا کی عبادت کرتا ہے یہ غلاموں والی عبادت ہے، اور ایک گروہ ثواب کی لالچ میں خدا کی عبادت کرتا ہے یہ مزدورں والی عبادت ہے اور ایک گروہ خدا سے عشق و محبت کی وجہ سے عبادت کرتا ہے یہ آزاد لوگوں والی عبادت ہے اور یہی بہترین عبادت ہے"
لیکن مولائے کائنات خدا کی عبادت کیسے کرتے ہیں آپ خود فرماتے ہیں:
ما عَبَدتُكَ طَمَعًا في جَنَّتِكَ، ولا خَوفًا مِن نارِكَ، ولكِن وَجَدتُكَ أهلًا لِلعِبادَةِ فَعَبَدتُك*(مرآة العقول ج 10 ص 101 ناشر- دارالکتب الاسلامیہ تہران)
"میں نے تیری عبادت نہ ہی جنت کی لالچ کیا ہے اور نہ ہی جہنم کے خوف سے بلکہ تجھے لائق عبادت پایا اس لئے تیری عبادت کی"
اصبغ ابن نباتہ بیان کرتے ہیں کہ ضرار بن ضمرہ معاویہ کے پاس گئے تو اس نے کہا کہ علی کی تعریف کرو ضرار تعریف کرنا شروع کرتے ہیں اور تعریف کرتے کرتے کہتے ہیں:
"رَحِمَ اَللَّهُ عَلِيّاً كَانَ وَ اَللَّهِ طَوِيلَ اَلسَّهَادِ قَلِيلَ اَلرُّقَادِ يَتْلُو كِتَابَ اَللَّهِ آنَاءَ اَللَّيْلِ وَ أَطْرٰافَ اَلنَّهٰارِ وَ لَوْ رَأَيْتَهُ إِذْ مُثِّلَ فِي مِحْرَابِهِ وَ قَدْ أَرْخَى اَللَّيْلُ سُدُولَهُ وَ غَارَتْ نُجُومَهُ وَ هُوَ قَابِضٌ عَلَى لِحْيَتِهِ يَتَمَلْمَلُ تَمَلْمُلَ اَلسَّلِيمِ وَ يَبْكِي بُكَاءَ الحزین قَالَ فَبَكَى مُعَاوِيَةُ وَ قَالَ حَسْبُكَ يَا ضِرَارُ كَذَلِكَ كَانَ وَاَللَّه عَلِيٌّ رَحِمَ اَللَّهُ أَبَا اَلْحَسَنِ" (امالی صدوق ص 625 ناشر- کتابچی تہران)
"خدا علی پہ رحمت نازل کرے وہ رات کو زیادہ جگتے تھے اور کم سوتے تھے پوری رات اور دن میں بھی قرآن کی تلاوت کرتے تھے، اگر علی کے اوپر نظر ڈالتے تو وہ محراب میں نظر آتے اور جب رات ہوجاتی تھی تو اپنی ریش مبارک کو ہاتھوں میں لئے ہوئے ایسے تڑپتے تھے جس طرح سانپ کا کاٹا ہوا تڑپتا ہے اور کوئی غم رسیدہ گریہ کرتا ہے، ضرار تعریف کرتے جارہے تھے کہ ایک مرتبہ معاویہ رونے لگا اور کہتا ہے کہ ضرار بس کرو خدا کی قسم علی ایسے ہی تھے خدا ابوالحسن کے اوپر رحمت نازل کرے"
جس مولائے کائنات کے ہم لوگ ماننے والے ہیں ان کی عبادت کا یہ حال ہے تو ہمیں بھی چاہیئے کہ ہم بھی مولا کی سیرت پہ عمل کرتے ہوئے اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ عبادت و بندگی میں بسر کریں تا کہ ان کے حقیقی چاہنے والوں میں ہمارا بھی شمار ہونے لگے۔
واقعا مولائے کائنات کی عبادت کو جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آپ کتنی زیادہ عبادت انجام دیتے تھے کس قدر نماز پڑھتے تھے کتنا زیادہ روزہ رکھتے تھے کتنا زیادہ گریہ کرتے تھے، آپ کے اندر کتنا زیادہ خوف خدا پایا جاتا تھا کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔
آخر میں خداوند عالم سے دعا ہے کہ خدا محمد(ص) و آل محمد علیہم السلام کے صدقہ میں خاص طور سے مولائے کائنات کے صدقہ میں ہمیں توفیق عنایت فرمائے کہ ہم بھی زیادہ سے زیادہ عبادت و بندگی انجام دے سکیں خاص طور سے ماہ مبارک رمضان کے ان بچے ہوئے چند دنوں میں اور اس مبارک اور تقدیر لکھنے والی رات میں، تاکہ ہماری زندگی بھی زیادہ سے زیادہ نورانی بن سکے۔